"خاموشی کا رشتہ"
لاہور کی شامیں ہمیشہ سے حسین تھیں، خاص کر جب ہلکی ہلکی ہوا میں بوہڑ کے درختوں کی سرسراہٹ شامل ہو جائے۔ عائشہ اکثر یونیورسٹی سے واپسی پر اپنے رستے میں آنے والے اسی پرانے پارک میں کچھ دیر بیٹھتی، کتاب پڑھتی یا بس خاموشی سے لوگوں کو دیکھتی۔
ایک دن وہ وہاں بیٹھی تھی کہ ایک لڑکا سامنے والے بینچ پر آ بیٹھا۔ اس کے ہاتھ میں خاکی رنگ کی ڈائری تھی، جسے وہ کبھی کھولتا، کبھی بند کرتا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی گہری اداسی تھی جو عائشہ کے دل کو چھو گئی۔
چند دن یوں ہی گزرے، وہ دونوں روزانہ اُسی وقت، اُسی جگہ ہوتے، مگر کبھی بات نہ ہوئی۔ بس ایک خاموشی تھی، جس میں عجیب سا سکون تھا۔
پھر ایک دن، لڑکے نے وہی ڈائری عائشہ کے بینچ پر رکھ دی اور خاموشی سے چلا گیا۔
عائشہ نے ڈائری کھولی تو پہلا جملہ لکھا تھا:
"محبت ہمیشہ لفظوں کی محتاج نہیں ہوتی، بعض رشتے صرف خاموشی سے بنتے ہیں۔"
ڈائری میں روز مرہ کے مشاہدات تھے، چند ادھورے خواب، کچھ مکمل کہانیاں… اور درمیان میں عائشہ کے بارے میں چند سطریں:
"وہ لڑکی جو شام کے سناٹے میں سب سے خوبصورت ہوتی ہے، جب کتاب پڑھتی ہے تو دنیا جیسے رُک سی جاتی ہے۔ میں اُسے کبھی کچھ نہیں کہہ پایا، مگر اُس کی موجودگی نے میرے اندر کی خالی جگہ بھر دی ہے۔"
عائشہ کی آنکھوں میں نمی آ گئی، مگر ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
اگلے دن، وہ اُسی پارک میں گئی، ڈائری کے ساتھ۔ وہ لڑکا آیا تو وہ مسکرائی اور آہستہ سے بولی:
"شاید کچھ رشتے واقعی خاموشی سے بنتے ہیں، لیکن کبھی کبھار لفظوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ "
وہ دونوں مسکرائے، اور پہلی بار وہ خاموشی ٹوٹ گئی — مگر رشتہ اور گہرا ہو گیا۔

No comments:
Post a Comment